۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
ازدواج امام علی و حضرت زهرا

حوزہ/پہلی ذی الحجہ سنہ ۲ ہجری کو امیر المومنین حضرت علی اور صدیقہ کبریٰ حضرت فاطمہ زہرا علیہما السلام کا عقد ہوا جسے رحمت للعالمین حضرت ختمی مرتبت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے خود بنفس نفیس پڑھا۔

حوزہ نیوز ایجنسی| پہلی ذی الحجہ سنہ ۲ ہجری کو امیر المومنین حضرت علی اور صدیقہ کبریٰ حضرت فاطمہ زہرا علیہما السلام کا عقد ہوا جسے رحمت للعالمین حضرت ختمی مرتبت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے خود بنفس نفیس پڑھا۔

اس پر مسرت مناسبت پر سبھی مسلمانان عالم کی خدمت میں ہدیہ تبریک و تہنیت پیش کرتے ہیں۔

رسول اکرم (ص) اپنے چند با وفا مہاجر اور انصار اصحاب کے ساتھ اس شادی کے جشن میں شریک تھے ۔ تکبیر و تہلیل کی صداؤں نے مدینہ کی گلیوں کو ایک روحانی کیفیت بخشی تھی جبکہ دلوں میں سرور و شادمانی کی لہریں موج زن تھیں ۔

شروع ہی سے سب جانتے تھے کہ علی (ع) کے علاوہ کوئی دختر رسول (ص) کا کفو و ہم رتبہ نہیں ہے لیکن اس کے باوجود بھی اپنے آپ کو پیغمبر (ص) کے قریبی سمجھنے والے کئی افراد اپنے دلوں میں دختر رسول (ص) سے شادی کی امید لگائے بیٹھے تھے ۔

مورخین نے لکھا ہے: جب سب لوگوں نے قسمت آزمائی کر لی تو حضرت علی (ع) سے کہنا شروع کردیا : اے علی (ع) آپ دختر پیغمبر (ص) سے شادی کے لئے اقدام کیوں نہیں کرتے؟ تو آپ (ع) فرماتے کہ "میرے پاس ایسا کچھ بھی نہیں ہے جس کی بنا پر میں اس راہ میں قدم بڑھاؤں"۔ 

لوگ کہتے کہ "پیغمبر (ص) تم سے کچھ نہیں مانگیں گے"۔

آخر کار حضرت علی (ع) نے اس پیغام کے لئے اپنے آپ کو آمادہ کیا ۔ اور ایک دن رسول اکرم (ص) کے بیت الشرف میں تشریف لے گئے لیکن شرم و حیا کی وجہ سے آپ اپنا مقصد ظاہر نہیں کر پا رہے تھے ۔

مورخین لکھتے ہیں کہ :آپ اسی طرح دو تین مرتبہ رسول اکرم (ص) کے گھر گئے لیکن اپنی بات نہ کہہ سکے۔ آخر کار تیسری مرتبہ پیغمبر اکرم (ص) نے پوچھ ہی لیا : اے علی کیا کوئی کام ہے ؟

حضرت امیر (ع) نے جواب دیا : جی ، رسول اکرم (ص) نے فرمایا : شاید زھراء سے شادی کی نسبت لے کر آئے ہو ؟ حضرت علی (ع) نے جواب دیا، جی ۔ چونکہ مشیت الٰہی بھی یہی چاہ رہی تھی کہ یہ عظیم رشتہ برقرار ہو لہذا حضرت علی (ع) کے آنے سے پہلےہی رسول اکرم (ص) کو وحی کے ذریعہ اس بات سے آگاہ کیا جا چکا تھا ۔ بہتر تھا کہ پیغمبر (ص) اس نسبت کا تذکرہ زہراء سے بھی کرتے لہذا آپ نے اپنی صاحب زادی سے فرمایا : آپ ، علی (ع) کو بہت اچھی طرح جانتیں ہیں ، وہ مجھ سے سب سے زیادہ نزدیک ہیں ، علی (ع) اسلام سابق خدمت گذاروں اور با فضیلت افراد میں سے ہیں، میں نے خدا سے یہ چاہا تھا کہ وہ تمہارے لئے بہترین شوہر کا انتخاب کرے ۔

اور خدا نے مجھے یہ حکم دیا کہ میں آپ کی شادی علی (ع) سے کر دوں آپ کی کیا رائے ہے ؟

حضرت زہراء (س) خاموش رہیں ، پیغمبر اسلام (ص) نے آپ کی خاموشی کو آپ کی رضا مندی سمجھا اور خوشی کے ساتھ تکبیرکہتے ہوئے وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے ۔ پھر حضرت امیر (ع) کو شادی کی بشارت دی ۔

حضرت فاطمه زہرا کا حق مہر

حضرت فاطمہ زہرا (س) کا مہر ۴۰ مثقال چاندی قرار پایا اور اصحاب کے ایک مجمع میں خطبہ نکاح پڑھا دیا گیا ۔قابل غور بات یہ ہے کہ شادی کے وقت حضرت علی (ع) کے پاس ایک تلوار ، ایک ذرہ اور پانی بھرنے کے لئے ایک اونٹ کے علاوہ کچہ بھی نہیں تھا ، پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا : تلوار کو جہاد کے لئے رکھو ، اونٹ کو سفر اور پانی بھرنے کے لئے رکھو لیکن اپنی زرہ کو بیچ ڈالو تاکہ شادی کے وسائل خرید سکو ۔ رسول اکرم (ص) نے جناب سلمان فارسی سے کہا : اس زرہ کو بیچ دو جناب سلمان نے اس زرہ کو پانچ سو درہم میں بیچا ۔ پھر ایک بھیڑ ذبح کی گئ اور اس شادی کا ولیمہ ہوا ۔ جہیز کا وہ سامان جو دختر رسول اکرم (ص) کے گھر لایا گیا تھا ،اس میں چودہ چیزیں تھی ۔

شہزادی عالم، زوجہ علی (ع)، فاطمہ زہراء (ع) کا بس یہی مختصر سا جہیز تھا ۔ رسول اکرم (ص) اپنے چند با وفا مہاجر اور انصار اصحاب کے ساتھ اس شادی کے جشن میں شریک تھے ۔ تکبیروں اور تہلیلوں کی آوازوں سے مدینہ کی گلیوں اور کوچوں میں ایک خاص روحانیت پیدا ہو گئی تھی اور دلوں میں سرور و مسرت کی لہریں موج زن تھیں ۔ پیغمبر اسلام (ص) اپنی صاحب زادی کا ہاتھ حضرت علی (ع) کے ہاتھوں میں دے کر اس مبارک جوڑے کے حق میں دعا کی اور انہیں خدا کے حوالے کر دیا ۔ اس طرح کائنات کے سب سے بہتر جوڑے کی شادی کے مراسم نہایت سادگی سے انجام پائے۔

حضرت فاطمہ (س) کا اخلاق و کردار

حضرت فاطمہ زہرا اپنی والدہ گرامی حضرت خدیجہ کی والا صفات کا واضح نمونہ تھیں جودوسخا ، اعلیٰ فکری اور نیکی میں اپنی والدہ کی وارث اور ملکوتی صفات و اخلاق میں اپنے پدر بزرگوار کی جانشین تھیں ۔ وہ اپنے شوہر حضرت علی (ع) کے لئے ایک دلسوز، مہربان اور فدا کار زوجہ تھیں ۔آپ کے قلب مبارک میں اللہ کی عبادت اور پیغمبر کی محبت کے علاوہ اور کوئی تیسرا نقش نہ تھا۔ زمانہ جاہلیت کی بت پرستی سے آپ کوسوں دور تھیں ۔ آپ نےشادی سے پہلے کی ۹ سال کی زندگی کے پانچ سال اپنی والدہ اور والد بزرگوار کے ساتھ اور ۴ سال اپنے بابا کے زیر سایہ بسر کئے اور شادی کے بعد کے دوسرے نو سال اپنے شوہر بزرگوار علی مرتضیٰ (ع) کے شانہ بہ شانہ اسلامی تعلیمات کی نشر و اشاعت، اجتماعی خدمات اور خانہ داری میں گذارے ۔ آپ کا وقت بچوں کی تربیت گھر کی صفائی اور ذکر و عبادت خدا میں گذرتا تھا ۔ فاطمہ (س) اس خاتون کا نام ہے جس نے اسلام کے مکتب تربیت میں پرورش پائی تھی اور ایمان و تقویٰ آپ کے وجودکے ذرات میں گھل مل چکا تھا ۔

فاطمہ زہرا (س) نے اپنے ماں باپ کی آغوش میں تربیت پائی اور معارف و علوم الہٰی کو، سر چشمہ نبوت سے کسب کیا۔ انہوں نے جو کچہ بھی ازدواجی زندگی سے پہلے سیکھا تھا اسے شادی کے بعد اپنے شوہر کے گھر میں عملی جامہ پہنایا ۔ وہ ایک ایسی مسن و سمجھدار خاتون کی طرح جس نے زندگی کے تمام مراحل طے کر لئے ہوں اپنے اپنے گھر کے اموراور تربیت اولاد سے متعلق مسائل پر توجہ دیتی تھیں اور جو کچھ گھر سے باہر ہوتا تھا اس سے بھی باخبر رہتی تھیں اور اپنے اور اپنے شوہر کے حق کا دفاع کرتی تھیں ۔

حضرت فاطمہ(س) کا نظام عمل

حضرت فاطمہ زہرا نے شادی کے بعدجس نطام زندگی کا نمونہ پیش کیا وہطبقہ نسواں کے لئے ایک مثالی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ گھر کا تمام کام اپنے ہاتھ سے کر تی تھیں ۔ جھاڑو دینا، کھانا پکانا، چرخہ چلانا، چکی پیسنا اور بچوں کی تربیت کرنا۔یہ سب کام اور ایک اکیلی سیدہ لیکن نہ تو کبھی تیوریوں پر بل پڑے اورنہ کبھی اپنے شوہر حضرت علی علیہ السّلام سے اپنے لیے کسی مددگار یا خادمہ کے انتظام کی فرمائش کی ۔ ایک مرتبہ اپنے پدر بزرگوار حضرت رسولِ خدا سے ایک کنیز عطا کرنے کی خواہش کی تو رسول نے بجائے کنیز عطا کرنے کے وہ تسبیح تعلیم فرمائی جو تسبیح فاطمہ زہرا کے نام سے مشہورہے .۳۴ مرتبہ الله اکبر،33 مرتبہ الحمد الله اور 33 مرتبہ سبحان الله۔ حضرت فاطمہ اس تسبیح کی تعلیم سے اتنی خوش ہوئی کہ کنیز کی خواہش ترک کردی ۔ بعد میں رسول نے بلاطلب ایک کنیز عطا فرمائی جو فضہ کے نام سے مشہور ہے۔ جناب سیّدہ اپنی کنیز فضہ کے ساتھ کنیز جیسابرتاؤ نہیں کرتی تھیں بلکہ اس سے ایک برابر کے دوست جیسا سلوک کرتی تھیں. وہ ایک دن گھر کا کام خود کرتیں اور ایک مدن فضہ سے کراتیں ۔ اسلام کی تعلیم یقیناً یہ ہے کہ مرد اور عورت دونوں زندگی کے جہاد میں مشترک طور پر حصہ لیں اور کام کریں . بیکار نہ بیٹھیں مگر ان دونوں میں صنف کے اختلاف کے لحاظ سے تقسیم ُ عمل ہے . اس تقسیم کار کو علی علیہ السّلام اور فاطمہ نے مکمل طریقہ پر دُنیا کے سامنے پیش کر دیا۔ گھر سے باہر کے تمام کام اور اپنی قوت ُ بازو سے اپنے اور اپنے گھر والوں کی زندگی کے حرچ کاسامان مہیا کرنا علی علیہ السّلام کے ذمہ تھے اور گھر کے اندر کے تمام کام حضرت فاطمہ زہرا انجام دیتی تھیں ۔

حضرت زہرا سلام اللہ کا پردہ

سیدہ عالم نہ صرف اپنی سیرت زندگی بلکہ اقوال سے بھی خواتین کے لیے پردہ کی اہمیت پر بہت زور دیتی تھیں. آپ کا مکان مسجدِ رسولِ سے بالکل متصل تھا۔ لیکن آپ کبھی برقع وچارد میں نہاں ہو کر بھی اپنے والدِ بزرگوار کے پیچھے نماز جماعت پڑھنے یا اپ کا وعظ سننے کے لیے مسجد میں تشریف نہیں لائیں بلکہ اپنے فرزند امام حسن علیہ السّلام سے جب وہ مسجد سے واپس جاتے تھے اکثر رسول کے خطبے کے مضامین سن لیا کرتی تھیں. ایک مرتبہ پیغمبر نے منبر پر یہ سوال پیش کر دیا کہ عورت کے لیے سب سے بہتر کیا چیز ہے یہ بات سیدہ کو معلوم ہوئ تو آپ نے جواب دیا عورت کے لئے سب سے بہتر بات یہ ہے کہ نہ اس کی نظر کسی غیر مرد پر پڑے اور نہ کسی غیر مرد کی نظر ا س پر پڑے .رسول کے سامنے یہ جواب پیش ہوا تو حضرت نے فرمایا . "کیوں نہ ہو فاطمہ میرا ہی ایک ٹکڑا ہے۔"

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .